اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اسلام آباد نے چین اور روس کے ساتھ مل کر جوہری تجربات کیے ہیں۔
ایک اعلیٰ پاکستانی سیکیورٹی عہدیدار نے، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی ٹی وی نیٹ ورک سی بی ایس نیوز سے گفتگو کی، کہا کہ پاکستان نہ تو پہلا ملک تھا جس نے جوہری تجربہ کیا اور نہ ہی پہلا ملک ہوگا جو دوبارہ ایسا قدم اٹھائے گا۔
صدر ٹرمپ نے حال ہی میں سی بی ایس کے پروگرام “60 منٹ” میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ دوبارہ جوہری تجربات کرے گا کیونکہ دوسرے ممالک بھی کر رہے ہیں۔ یقیناً شمالی کوریا اور پاکستان نے تجربات کیے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کا آخری معروف جوہری تجربہ 28 مئی 1998 کو بلوچستان کے چاغی علاقے میں ہوا تھا۔ اس کے بعد سے پاکستان نے اگرچہ جامع معاہدہ برائے ممانعتِ آزمایشهای هستهای (CTBT) پر دستخط نہیں کیے، تاہم اس نے جوہری تجربات پر یکطرفہ پابندی برقرار رکھی ہوئی ہے۔
پاکستان نے یہ صلاحیت اس وقت حاصل کی جب بھارت نے اپنے جوہری تجربات کے ذریعے خطے میں طاقت کا توازن بگاڑا۔ اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ اس کی جوہری پالیسی محض دفاعی نوعیت کی ہے۔
دریں اثنا، پاکستان کی جوہری پالیسی میں ایک نمایاں تبدیلی اس وقت آئی جب حکام نے واضح کیا کہ ملک اب "عدمِ استعمالِ نخست" (No First Use) کی پالیسی پر عمل نہیں کر رہا۔ گزشتہ برس ایک سینئر مشیر، جو اسٹریٹجک پلانز ڈویژن سے وابستہ ہیں، نے اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران کہا تھا کہ "پاکستان کی کوئی عدمِ استعمالِ نخست پالیسی نہیں ہے، اور میں اسے پوری وضاحت کے ساتھ دہراتا ہوں۔
اسلام آباد کی اس پالیسی میں تبدیلی دراصل بھارت کی جانب سے مبہم جوہری حکمتِ عملی کے ردِعمل کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کا عدمِ استعمالِ نخست کا دعویٰ محض لفاظی ہے، کیونکہ بھارتی دکٹرائن میں ایسے نکات موجود ہیں جو مخصوص حالات میں ایٹمی حملے کی اجازت دیتے ہیں۔
اس طرح پاکستان نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ وہ جوہری ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اور کسی بھی غیر مصدقہ الزام کو قبول نہیں کرے گا۔
آپ کا تبصرہ